
یہ ایک بڑا میدان تھا جس میں درجن بھر نقاب پوش افراد ہاتھوں میں جدید اسلحہ تھامے کھڑے تھے۔ میدان کے درمیان میں دو نقاب پوش افراد نے ایک نوجوان کو ہاتھوں اور پیروں سے جکڑ کر زمین پر الٹا کھڑا کیا ہوا تھا ۔ ایک اور نقاب پوش شخص اس نوجوان پر کوڑے برسا رہا تھا ۔
سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مداری کے تماشے کی طرح اس منظر کو دیکھ رہے تھے۔ کسی میں ہمت نہ تھی کہ ان نقاب پوشوں سے پوچھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے یا انہیں اس ظلم سے روکے۔
اس دوران ایک نقاب پوش شخص جس نے ہاتھ میں جدید گن تھام رکھی تھی قرانی آیات پڑھ رہا تھا ۔ تلاوت سے فارغ ہو کر اس نے اعلانیہ انداز میں مجمعے کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا، ہم نے شریعت کے مطابق اس شخص کو سزا دی ہے، یہ شخص لوگوں کو خراب گوشت فروخت کر رہا تھا۔
پھر اس نے دھمکی دی کہ اگر کسی نے بھی کوئی جرم کیا تو اس کو شریعت کے مطابق سزا دی جائیگی۔
مجمع خاموش رہا۔
نقاب پوش شخص نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوۓ پوچھا، کیا تمھیں شریعت کے مطابق انصاف چاہیے؟
سب نے کہا، ہاں۔
اس نے کہا کہ ہم اس ملک میں یہی نظام چاہتے ہیں اور اس کیلئے لڑتے رہیں گے۔
یہ واقعہ ان درجنوں واقعات میں سے ایک ہے جو سوات میں سال 2007 سے 2009 کے دوران ہونے والی شورش کے وقت پیش آئے، جب طالبان نامی عسکریت پسند گروہ نے ضلع سوات میں اسلحے کے زور پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان مسلح افراد کے طاقت ہتھیا لینے کے عزائم کے ساتھ ساتھ یہ عوامی رائے کو اپنی طرف مائل کرنے کیلئے یہ دعوی بھی کرتے تھے کہ وہ سستے اور فوری انصاف کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ائے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ اسلحہ بردار ملا فضل الله کی سربراہی میں سوات کے طول و عرض میں شرعی نظام کیلئے جنگ لڑ رہے تھے۔ اس سے ٹھیک پندرہ سال قبل ملا فضل الله کے سسر صوفی محمّد نے بھی سوات میں شرعی نظام عدل کیلئے حکومت وقت کو چیلنج کیا تھا ۔ ان تحریکوں کے عوامل اور وجوہات تو متعدد اور پیچیدہ ہیں اور ان کا انجام سوات کی عوام کیلئے خونی اور تکلیف دہ تھا لیکن کسی نہ کسی مرحلے پر ان تحریکوں نے عدالتوں میں بروقت انصاف نہ ملنے کی حقیقت کو اپنی طاقت اور اثر رسوخ بڑھانے کیلئے استعمال کیا۔
******
مینگورہ کے رہائشی اڑتالیس سالہ خورشید احمد باچا بائیس سال کی عمر سے عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے دادا کی دو بیویاں تھیں جن میں سے ایک بیوی نے ان کی مطابق ان کی تمام جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہوں نے اپنی والدہ، نو بھائیوں اور دو بہنوں کیلئے وراثت کا مقدمہ مقامی عدالت میں درج کیا جو کہ مسلسل نو سال تک عدالتوں میں چلتا رہا۔ ان نو سالوں میں خورشید کی جیب سے پچیس لاکھ سے زائد رقم وکیلوں کی فیسوں، آمد و رفت، گواہوں کو عدالتوں میں پیش کرنے، ان کے کرایوں اور آؤ بھگت میں خرچ ہوئی۔ یہ رقم شاید اس جائیداد میں ان کو ملنے والے حصے کی آدھی سے بھی زیادہ رقم بنتی ہے ۔ اسی طرح خورشید کے مخالف فریق جو کہ ان کے رشتہ دار ہی تھے ان کے بھی اتنے ہی اخراجات ہوۓ بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔ آخر میں تھک ہار کر ہم دونوں فریق آمنے سامنے ہو گئے اور جرگے کے ذریعے جائیداد کا تنازعہ حل کیا، خورشید باچا نے کہا۔ پاکستانی عدالتوں میں کسی بھی غریب شخص کو انصاف ملنا بہت مشکل ہے، انہوں نے کہا۔
خورشید نے بتایا کہ غریب شخص کے لئے کوئی گواہی نہیں دیتا۔ وکیل بغیر بھاری فیس کے مقدمے میں دلچسپی نہیں لیتے، بے بس اور لاچار لوگ خاموش ہو کر صبر کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ان نو سالوں میں سینکڑوں لوگوں کو عدالت کے چکر کاٹتے ہوۓ دیکھا ہے۔ انصاف نہ ملنے پر بے بس لوگ خود کشی کر لیتے ہے یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں۔ عدالت کے اندر میرے سامنے کئی قتل ہوۓ ہیں، خورشید نے کہا۔ ان کے مطابق پاکستان کے عدالتی نظام می جھوٹ پر جھوٹ چلتا ہے۔ مقدمات میں ملوث تمام لوگوں سے با قاعدہ بیان ریکارڈ کرنے سے قبل قرآن شریف پر حلف لیا جاتا ہے، خورشید نے بتایا۔ مگر میرے علم کے مطابق زیادہ تر لوگ اپنے بیانات سے مکر جاتے ہیں، انہوں نے کہا۔